خبریں

چارٹر آف اکنامی (Charter Of Economy)

میثاق معیشت کیوں ضروری ہے؟ کیا اس میثاق کے ذریعے ہم پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دے سکتے ہیں؟
پاکستان بزنس فورم لاہور کے تحت ’’میثاق معیشت ‘‘ کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس کا احوال

 

رپورٹ: اعظم طارق کوہستانی

پاکستان بزنس فورم لاہور نے اپنے قیام ہی سے ملکی معیشت کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ اس سلسلے میں میثاق معیشت کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے عرصہ دراز سے یہ کوشش جاری رہی کہ کسی طرح ملک کی بزنس کمیونٹی اور حکمرانوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
میثاق معیشت اس وقت ملک عزیز کی ضرورت ہے۔مختلف عوامل کی بنا پر اس وقت ملکی معیشت کا حال بہت بُرا ہوچکا ہے اور ضروری ہے کہ ملکی معیشت کو بچانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اس معاملے پر مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان بزنس فورم لاہور نے مئی 2022ء میں لاہور شہر کے ایک مقامی ہوٹل میں ’’چارٹر آف اکنامی‘‘ کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں ملک بھر کے ماہرین معیشت، بزنس کمیونٹی کے نمائندگان، سیاسی راہنماؤں اور تاجروں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں نے خطاب کیا۔جہاں اُنھوں نے مسائل کی نشاندہی کی،وہیں اُن مسائل کے حل بھی بتائے۔ اس کانفرنس کا انعقاد پانی میں وہ پہلا پتھرہے جس نے ایک ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کانفرنس سے کیے گئے مختلف خطابات کے اہم نکات درج کیے جارہے ہیں۔
اعجاز تنویر، صدر پاکستان بزنس فورم لاہور
۱۹۹۴ء میں جناب محترم قاضی حسین احمد نے ۲۵ سے زیادہ مسلم ممالک کے تاجروں کی موجودگی میں لاہور شہر میں ’’پاکستان بزنس فورم ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ انٹر نیشنل بزنس فورم کا پاکستان بزنس فورم ایک چیپٹر ہے۔ اس کا مقصد مسلم ممالک میں کاروباری کلچر کو فروغ دے کر مسلم ممالک کی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ اور الحمدللہ ۳۳ ممالک میں اس کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ اس جذبے کے تحت آج کا یہ پروگرام اس حال میں منعقد کیا جارہا ہے کہ جب ملکی معیشت بہت مشکل حالات میں ہے۔ ۷۵ سال سے یہی ہورہا ہے کہ ہر آنے والا حکمران کہتا ہے کہ اسے خزانہ خالی ملا ہے۔ آج اس قومی مکالمے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو کیسے بہتر بنائیں۔
پاکستان کی قیادت نے دو مرتبہ قومی اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا تو ہمیں اس کے نتیجے میں بڑے اچھے نتائج ملے۔
پہلی مرتبہ۱۹۷۱ء میں جب ملک دولخت ہوا تو حالات بہت خراب تھے۔ اس وقت مذہبی سیاسی قیادت نے برداشت تحمل اور برد باری کے ساتھ بیٹھ کر قومی اتفاق رائے کے ساتھ ملک کو ۱۹۷۳ء کا آئین دیا۔ ان کی برداشت اور تحمل نے ہمیں ایک آئین پر متفق کر لیااور یہی پاکستان کی بقا تھی۔
دوسری بار مشرف کی طویل آمریت کے بعد چار ٹر آف ڈیمو کریسی سائن ہوا۔ اس وقت تمام اختلافات کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے تد بر اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، اس کا پھل یہ ہے کہ جمہوری نظام (چاہے وہ جیسا بھی لولا لنگڑا موجود ہے) برقرار ہے۔ اس میں یقیناً خامیاں ہیں لیکن یہ دونوں میثاق ملکی تاریخ کے اہم باب ہیں۔
لوگوں سے بھی التماس کروں گا کہ آپ آگے بڑھیں ۔ہماری قوم کو، لیڈروںکو، بیوروکریسی کو ایک ہی صف میں کھڑی ہونا پڑے گا۔ میثاق معیشت پر اکھٹے ہوںگے تو ملک معاشی طور پر مضبوط ہوسکے گا اور ہم دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ سکیں گے۔

عرفان اقبال شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی
اس اہم موضوع پر پروگرام منعقد کروا کر تنویر اعجاز صاحب اور ان کی پوری ٹیم دادِ تحسین کی مستحق ہے۔ ملکی صورت حال اس وقت اتنی دگرگوں ہے کہ اس میں ہمیں کوئی مثبت خبر سننے کو نہیں مل رہی ہے۔ اس وقت جاگنے کا وقت ہے اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے گا۔ ہمیں ہر حال میں جاگنا پڑے گا۔ اس ملک میں ۷۵ برسوں سے ہم نے سیاست کو ترجیح میںرکھا لیکن یاد رکھیں کہ ملک بچے گاتو آپ کی سیاست بھی چلے گی اور ملک کی بقا کو بچانے کے لیے پوری دنیا میں معیشت کو پہلی ترجیح دی جاتی ہے۔
میں اس وقت فیڈریشن میں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ہر قسم کی لگژری امپورٹ کو فوری طور پر بند کرنا چاہیے اور یہ کام کل نہیں آج کریں۔ ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ اگر سخت فیصلے نہ کیے یاد یر سے کیے تو اتنا ہی نقصان ہوگا۔
ہم لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ یہ بڑی گاڑیاں بھی ملکی معیشت پر بوجھ کی مانند ہے۔ تمام بڑی گاڑیوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ اس وقت یہی ترجیح ملکی معاملات میں ہونی چاہیے۔
انڈسٹری لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ نیب جیسے اداروں کو لگا م ڈالنا چاہیے جس کی وجہ سے نئی انڈسٹریاں خوف کی بنا پر نہیں لگائی جارہی ہیں۔ یہ خوف کم اور ختم کرنا ہوگا۔ ملک اسی صورت اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے کہ ذراعت کے شعبے کو موثر بنائیں اور نئی انڈسٹریاں لگائیں۔ اس وقت ہمارا اب سے بڑا مسئلہ غیر ملکی کرنسی ہے۔ ایسی اسکیمز لائی جائیں کہ لوگ اپنی غیر ملکی کرنسی کو گھروں میں رکھنے کے بجائے بینک میں جمع کروائیں تاکہ ملک مشکل سے نکل سکے۔
باہر سے پاکستانی جو رقم بھیجتے ہیں ان کو مناسب سہولیات نہیں ملتیں کہ وہ ان آسان ذرائع کو استعمال کر کے با آسانی رقم پاکستان بھجواسکے ۔ اگر اس معاملے میں اچھی سروس لوگوں کو فراہم کی جائے تو آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ متوقع ہے۔ ہمیں پاکستان کے لیے کام کرنا ہے پاکستان کے لیے سوچنا ہے۔

لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ایک ملک میں جہاں کئی عوامل اہم ہوتے ہیں وہیں معیشت اور معیشت سے جڑے،صنعت، تجارت ، زراعت اور اس کی انتظامیہ کے ذمہ داران رگِ جان کی حیثیت رکھتے ہیںاور اگر ان سب کے درمیان ہم آہنگی نہ ہوتو ساری چیزیں تتر بتر ہوجاتی ہیں۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سیاست بھی ، پارلیمنٹ بھی ، جمہوریت، انتخابات بھی جہاں اس ملک کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں وہیں عوام الناس کے فلاح وبہبود کے لیے ملکی معیشت کا اقتصادی معاشی نظام ان کی مشکلات کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے اور جب تک عوام فلاح کے لیے معیشت کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا۔ ملکی نظم ونسق اتنا ہی انتشار کا شکار ہوتا جائے گا۔
ہمارا ملک اس حوالے سے بھی خوش نصیب ہے کہ جغرافیائی اور وسائل کے لحاظ سے مالا مال ہے ۔انسانی وسائل جو ہمارے پاس ہیں وہ بہت کم ملکوں کو نصیب ہے۔ چودھری سرور ن لیگ اور بعد ازاں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح ملکی معیشت کا نظام ٹھیک ہوسکے لیکن اُنھیں وہ کامیابی نہیں ملی کہ نظام کو ٹھیک کیا جاسکے۔
سیاسی گورکھ دھندوں میں ہمارے حکمرانوں نے اپنی قوم پر اعتماد کرنے کے بجائے دنیا کے بڑے ہاتھیوں کی دہلیز پر اپنی معیشت کو گروی رکھ دیا ہے۔ ۱۹۷۱ء کا دستور بنا تو اس وقت بھی دستور بنانے والوں کا خیال تھا کہ دنیا کا نظام ناکام ہوچکا ہے اور اب ایک نئے معاشی نظام کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کے آئین میں یہ طے پایا کہ یہ کام کیا جائے۔ پاکستان نظریاتی کو نسل کو اللہ نے توفیق دی تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر اکنامک کانفرنسز کا انعقاد ہوا۔دنیا بھر کے ماہرین کو بلایا گیا اور طے پایا کہ معیشت کو سود سے پاک کرنا چاہیے اور اسلام کے معاشی نظام کو اختیار کرنا چاہیے لیکن ان چیزوں پر عمل کرنے کے بجائےحکومت اس معاملے پر سپریم کورٹ میں چلی گئی کہ ملک کو اب رِبا فری نہیں کیا جاسکتا۔
یہ کیس چلتا رہا اور اب کئی برسوں بعد دوبارہ یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کو سود سے ہر حال میں پاک کیا جائے لیکن تیس برسوں بعد بھی حکومت اس فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں اور ایک بار پھر عدالت میں بینکوں کے ذریعے اپیل دائر کردی۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں خوش دلی کے ساتھ اس فیصلے کو قبول کرنا چاہیے اور آئندہ پانچ برسوں کی حکومت کا روڈمیپ دینا چاہیے۔
پاکستان کے تمام معاشی ماہرین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے وہ ان سب بکھیڑوں سے نکلنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے۔ ملک کے بزنس کمیونٹی کے ادارے بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں اور انھیں چاہیے کہ وہ ایسا پریشر گروپ بنے جو باہم دست وگریباں ہونے کے بجائے کسی ایک معاملے پر یکسو ہوکر پاکستان کی معیشت کو تباہی سے بچاکر اسے ٹھیک راستے پر گامزن کریں۔ ملکی سیاست میں آئین کو بھی روندا جارہا ہے۔ ہارنے والا جیتنے والے کی جیت برداشت نہیں کر پارہا ہے۔ ذاتی انتقام سیاست میں درآیا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ پاکستان کی سیاست کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایک عجیب سی بے چینی ہے جو فضا میں چھائی ہوئی ہے۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہیں۔ اُنھیں چاہیے کہ ملکی مفادات کی خاطر اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ پاکستان کی معاشی صورت حال اور اپنی خود احتسابی کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کے اعتماد کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیں۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور یہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کے بقاکے لیے ضروری ہے۔وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے جو تاریخی فیصلہ دیا ہے پوری بزنس کمیونٹی کو اس فیصلے کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے نتیجے میں ہماری ہر چیز تباہی کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ ہمیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھی اس معاملے میں اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے۔

چودھری سرور، سابق گورنر پنجاب
میں پاکستان بزنس فورم لاہور کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اُنھوں نے بروقت اس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ میں آج سے تین سال پہلے گلاسکو میں گیا۔ وہاں انڈیا کے تھنک ٹینک آئے ہوئے تھے۔ میرے بہت اچھے دوست کے ہوٹل میں وہ ٹھیرے ہوئے تھے اس وقت پاکستان اور بھارت کے حالات بھارت کی طرف سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر بہت کشیدہ تھے۔
میں نے ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان اور انڈیا ایٹمی ملک ہیں اور ان میں کشید گی خطرناک بات ہے، آپ لوگوں کو اس کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار کرنا چاہیے۔
اُنھوں نے کہا: ’’ہم آپ کو ایک بات بتانا چاہتے ہیں کہ انڈیا نے پاکستان سے جنگ کبھی نہیں کرنی۔ انڈیا یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ جنگ تو نہیں ہوگی لیکن وہ آپ کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا اور جس ملک کی معیشت تباہ ہوجائے تو اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
اس کانفرنس میں ہمارے جو مقررین یہاں آئے، اُنھوں نے نہ صرف ملکی معیشت کے مسائل بتائے ہیں وہیں ان کے ممکنہ حل بتائے ہیں اور اس میں ایسی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ گراؤنڈ فلور پر کام کرنے والا فرد نہ صرف مسائل سمجھتا ہے وہیں مسائل کا حل بھی جانتا ہے۔
پچھلے آٹھ نو برس قبل پاکستان میں پلڈاٹ کے ساتھ مل کر ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بھی بلائی لیکن میں کسی ایک پارٹی کو بھی نو برسوں میں اس بات پر قائل نہیں کر سکا کہ شیڈوکیبنٹ کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ آپ یورپ میں کہیں سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی پارٹی کی شیڈوکیبنٹ نہ ہو۔حتیٰ کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں جس پارٹی کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ ہوتا ہے، ان کا بھی شیڈو کیبنٹ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تیاری آپ اس وقت کرتے ہیں جب آپ اپوزیشن میں ہوتے ہیں، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ کابینہ میں ہر سال تبدیلی ہوتی ہے اچھی کار کردگی پر کیبنٹ ممبر کی ترقی ہوتی ہے۔جو کارکردگی نہیں دکھاتے اُنھیں ایک طرف کر دیا جاتاہے۔
لیکن بد قسمتی سے آج تک میں اپنے سیاست دانوں کو شیڈو کیبنٹ کے لیےقائل نہیں کر سکا اور وہ کہتے ہیں اس سے لڑائی جھگڑے بڑھیں گے۔ اُنھوں نے ایک ایک سیٹ پر چار چار لوگوں کو دلاسہ دیا ہوتا ہے کہ وہ انھیں لگائیں گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی ایک لگادیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں،میں یہ سمجھتا ہوں کہ گزشتہ ۷۵ برسوں میں انھیں یہ پتا نہیں ہوتا کہ ملکی معاملات کو کیسے چلانا ہے اور نہ انھیں پالیسیوں کا پتا ہوتا ہے۔
اور سیز پاکستانی ہمیں ہر ماہ اتنے پیسے بھیجتے ہیں جتنے آئی ایم ایف اپنی ایک قسط میں ہمیں دے رہا ہے۔ اگر ہم اور سیز پاکستانیوں کو عزت دیں ان کے مسائل حل کر یں تو ہماری معیشت پر اچھا فرق پڑسکتا ہے۔
میں نے گورنر رہتے ہوئے حتیٰ المقدور کوشش کی کہ بزنس کمیونٹی کے مسائل کو حل کروں اور میں اس بات پر بھی یکسوں ہوں کہ حکومت کو معیشت کے حوالے سے سخت اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے اور ہمیں اس کی پشت پر کھڑا ہونا پڑے گا۔
بزنس کمیونٹی مبارک باد کی مستحق ہے کہ ملکی معیشت کے حوالے سے سوچ رہی ہےاور میں قاضی حسین احمد کے اس اقدام کو بھی سراہتا ہوں کہ اُنھوں نے بزنس فورم لاہور کی بنیاد رکھی اور آج ہم اسے پھلتا پھولتا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
اگر ہم اپنی گندم،چاول کی پیدوار پر توجہ دیں تو کوئی بعید نہیں کہ یہی کاشتکار انقلاب لے آئے لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری توجہ زراعت پر نہیں رہی ہے۔

انجینئر خالد عثمان، مرکزی سیکریٹری جنرل پاکستان بزنس فورم
اس کانفرنس کے انعقاد پر بزنس فورم کے تمام عہدے دار مبارک باد کے مستحق ہیں۔جس موضوع پر اس کانفرس کا انعقاد کیا جا رہا ہے ، اگرچہ انتہائی بورنگ اور خشک موضوع ہے لیکن جس قسم کے حالات کے اندر اس کانفرس کا انعقادہورہا ہے یہ پاکستان بھر کے تاجروں کے دل کی آواز ہے۔یہ موضوع جتنا مشہور ہے اس کا راستہ اتنا ہی غیر مقبول ہے۔ بہت زیادہ اسٹیک ہولڈر ہونے کی وجہ سے اس موضوع کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔لیکن اس کے بروقت اقدام کے باعث اسے سمجھنا آسان ہے۔ اس میثاق معیشت کا لفظ پاکستان بزنس فورم نے ایجاد نہیں کیا اس سے قبل کئی بار اس موضوع پر بات ہوچکی ہے، جب آپ اس قسم کے میثاق کی بات کرتے ہیں تو اس میں اسٹیک ہولڈر کو کچھ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔جب کہ معاملہ یہ ہے کہ کوئی اسٹیک ہولڈر یہ قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا اگر میں یہ تو قع کروں کہ اگلے دو تین ماہ میں میثاق معیشت کا معاملہ طے ہوجائے گا تو یقیناً یہ ایک دیوانے کا خواب ہوگا لیکن اس کام کا آغاز بہر حال ہم شروع کرسکتے ہیں۔اسی سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈر کو ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔
بزنس کے دوسرے ادارے مثلاً چیمبرز،صدر بزنس آرگنائزیشن ان سب کا کام ہے کہ ہم اس ڈائیلاگ کو آگے بڑھائیں اور اسے حتمی شکل دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بزنس کے تمام اسٹیک ہولڈر ایک صف میں کھڑے نظر نہیں آتے۔
ہمیں سیاسی قیادت کے ساتھ ملکر کم از کم چیزوں پر اتفاق کرتے ہوئے میثاق معیشت کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو اور حکومت وعوام کی مشکلات کم ہوں۔

ندیم قریشی، نائب صدر ایف پی سی سی آئی
ہمارے ملک میں میثاق جمہوریت تو ہوتے رہے ہیں لیکن میثاق معیشت کا کوئی رواج نہیں ہے اگر ہم ٹیکس کو لیکشن کا جائزہ لیں تو ۳۰۰ بلین روپے ٹیکس زیادہ اکھٹا کیا گیا ہے اور یہ ٹیکس ہم( بزنس کمیونٹی) نے دیا ہے، حکومت پچھلے سال کی نسبت اسے مزید بڑھا نا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایف بی آر کی پالیسی ہے نہ وہ بنا نا چاہتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ نہیں بڑھتا۔ ٹیکس نیٹ بھلا کیسے بڑھے گا جب آپ فرینڈلی پالیسی نہیں لائیں گے۔
سوال یہاں یہ ہے کہ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں آخر اُنھیں کیا سہولیات دی گئی ہیں۔ان کے کون سے مسائل حل کیے گئے ہیں۔ہمیں مل بیٹھ کر پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔میری تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ جب آپ میثاق جمہوریت پر اکھٹے ہوسکتے ہیں تو میثاق معیشت کے لیے بھی اکھٹے ہوجائیں۔
زراعت کے شعبے میں بتدریج بہتر ہونے کے بجائے ہم نیچے کی طرف جارہے ہیں۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ اب ہماری گندم کی ضروریات روس پوری کر رہا ہے۔اگر ہم صرف زراعت پر ہی فوکس کر لیں تو ہم اپنی معیشت کو توقع سے زیادہ بہتر کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔
میاں انجم نثار، سابق صدرایف پی سی سی آئی
پاکستان آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے، اس کے باوجود ہم امداد کے لیے امریکا، سعودی عرب ، چین کے طرف دیکھ رہے ہیں اور ذلیل ورسوا ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں انتظام کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بتدریج چیزوں کو کھوتے جارہے ہیں۔ چوں کہ ہم نے بنیادی پالیسیاں ٹھیک نہیں بنائی جس کے نتیجے میں بے شمار کاروباری معاہدے کرنے کے باوجود ہم وہ رزلٹ حاصل نہیں کر پائے جو کرنا چاہیے تھا۔ چند ایک کو چھوڑ کر یہ سارے معاہدے ہمارے حق میں ٹھیک ثابت نہیں ہوئے۔
ہم نے بغیر سوچے سمجھے دنیا کے ساتھ معاہدے کیے اور ان چیزوں کو مد نظر نہیں رکھا جس کی وجہ سے ہم بہتری لاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر ادارہ چھری لیکر کھڑا ہے کہ کہاں وہ آپ کو کاٹ سکے۔ہمیں اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مقامی مارکیٹ کو ترقی دینی چاہیے تھی۔ جس طرح میثاق جمہوریت کا معاہدہ کیا گیا تھا، اسی طرح میثاق معیشت کا معاہدہ کیا جانا چاہیے تھا۔ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسائل کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ بیوروکر یسی ہمیں چلا رہی ہوتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بیوروکر یسی کے اعلیٰ افسران کو بھی مسائل کا ادرک نہیں ہوتا جب کہ ان کے جونیئر افسران زیادہ معاملات کی تفہیم کر سکتے ہیں۔ بیورو کریسی میں ہم جب ۱۷ گریڈ کا ایک بندہ لیکر آتے ہیں اور۱ ۲ یا ۲۲ گریڈ میں جب وہ فارغ ہوتا ہے تو تمام شعبہ جات میں وہ وقت گزر چکا ہوتا ہے لیکن وہ کسی ایک شعبے میں تخصص حاصل نہیں کر پاتا۔ جب کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ یہ اسپیشلائزیشن کا دور ہے ۔ ہمیں ایسے افراد چاہیے جو اپنی فیلڈ کے ماہر ہوں ناکہ ہر فیلڈ کے تھوڑے تھوڑے ماہر۔ اس لیے بیوروکریسی میں بھی افراد کو تین چار شعبہ جات سے زیادہ نہیں گھمانا چاہیے تاکہ وہ فوکس ہوکر دو تین شعبہ جات ہی میں تخصص حاصل کرسکے۔
دوسری جانب بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ہم چوری روکنے کے بجائے بجلی کی قیمتیں بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔مصنوعی طریقوں سے ایکسپورٹ کے پانچ سیکٹرز کو آکسیجن دی ہوئی ہے۔ ان کو کم ریٹ پر بجلی فراہم کی جارہی ہیں جب کہ ساری انڈسٹری کے لیے ایک ریٹ ہونے چاہیے۔
ہم اپنی کمزوری پر قابو پانے کے بجائے پوری دنیا میں گداگری کررہے ہیں۔ ٹیکس کا نظام بہتر کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ سارے کام ٹھیک ہوسکتے ہیں اگر ہماری ساری سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحرک ہوکر ملک کو ایک صحیح ڈائر یکشن دے۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو جو ہمارا حال ہے اس سے بھی بدتر حال ہوگا۔
ملک میں چند برس قبل تک خوراک کی کمی نہیں تھی لیکن اب ہم خوراک کی قلت کا بھی شکار ہورہے ہیں اور دیگر ممالک سے اناج اور دیگر چیزیں منگوار ہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور آبادی کے کے بڑھنے کے ساتھ ہم نے کوئی پلاننگ نہیں کی۔

نعیم میر، مرکزی سیکر ٹری جنرل انجمن تاجران
میثا ق معیشت معاہدے کے دو پہلو ہیں ایک پہلو خارجی جبکہ دوسرا داخلی ہے۔ اگر میں خارجی پہلو کا پہلے ذکر کروں تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ملک میں خوشحالی لانے کے لیے ہمیں دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے ہوں گے اور آزادی ، خود مختاری جیسے لفظوں کو مدہم کرنا ہوگا۔
دنیا میں اگر رہنا ہے تو دنیا کے طور طریقوں کو اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے کس بلاک میں رہ کر کیا فوائد حاصل کرنے ہیں بغیر فوائد کے کوئی رہ نہیں سکتا۔ سبھی کو اپنا قومی مفاد عزیز ہونا چاہیے۔خارجی محاذپر سب سے پہلے اپنے بلاک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہ خارجی پہلو ہے۔
دوسرا پہلو داخلی ہے جو پاکستان کے عوام کے ساتھ مل کر طے کرنا ہے، اس کے لیے اچھا فورم پارلیمنٹ ہے اس پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور اس کا تعین وہی کریں گی لیکن ہم پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں سے اتنی میچورٹی کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ہم ڈائیلاگ کرسکتے ہیں جس کا نتیجہ اگر چہ جلد نہیں نکلے گا لیکن دیرپا یہ معاملہ بہتری کی جانب ضرور جائے گا۔
اگر اس مکالمے کا آغا ز کرنا ہوا تو ہمیں ایمنسٹی ایک بار پھر تمام لوگوں کو دینی پڑے گی ۔ ہمیں معافی دینی پڑے گی۔ سبھی کو معانی دینی ہوگی۔ اس کے بعد ہمیں احتساب کا نظام وضع کرنا پڑے گا۔ چور چور کے نعرے لگانے کے بجائے سب کو معاف کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد بلا امتیاز احتساب کا نظام بنانا پڑے گا۔
اس کے لیے سزا ہونی چاہیے۔ پاکستان بزنس فورم نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا ہے۔یہ یقیناً بڑا کام ہے یہ کام ہوجائے تو یقینا ہرے پاسپورٹ کی شان میں اضافہ ہوگا۔

نعمان کبیر، صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چارٹر آف اکنامی ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی کے ساتھ جن لوگوں نے اسے طے کرنا ہے وہ اس ہال میں موجود نہیں یا اُنھوں نے آنا گوارا ہی نہیں کیا۔
عرفان اقبال شیخ صاحب ہمارے منتخب صدر ہیں۔ آپ کاروباری حضرات کو جمع کر کے اس معاملے کو آگے بڑھائیں کیوں کہ سیاست دانوں سے ہمیں بہت کم امید ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ جو سیاسی جماعتیں اپنا معاشی منصوبہ پیش نہیں کر تیں، اُنھیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ہندوستان میں جب منموہن سنگھ صاحب کی حکومت تھی تو اس وقت اُنھوں نے ایک طویل المدتی معاشی منصوبہ بنایا جو اب تک چل رہا ہے۔اس دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن وہ پلان یونہی چلتا جارہا ہے۔
جس ملک کے معاشی پروگرام میں تسلسل نہیں ہوگا۔ وہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ معیشت آگ نہیں بڑھ سکتی ۔ بزنس مین کی ہمیشہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ اسے آگے کیا کرنا ہے کس سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنی ہے۔ اس کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن سیاسی طور پر ہمارے ملک میں افراتفری کی وجہ سے اب تک بے تحاشا نقصان ہوچکا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤکے باعث دنیا بھر میں تیل کی کھپت کم کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جبکہ ہمیں اس معاملے میں کوئی سنجیدہ کو شش حکومت کی طرف سے نظر نہیں آرہی ہے۔

hacked by bgke04dev

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے