اہلِ مکہ کی میثاق معیشت کے لیے تجارتی معاہدے
محمد یوسف الدین
مکہ کی معاشی ترقی میں ہاشم سردار قریش کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہاشم ہی نے ان کے اسباب معیشت کی تنظیم کی تھی۔ قریش کے لیے تجارتی معاہدے حاصل کیے۔ اس طرح قریش کی معاشی ترقی خصوصاً تجارت خارجہ کے لیے دروازے کھل گئے اور وہ تجارت کی بدولت مالا مال ہوگئے۔
مورخ یعقوبی لکھتا ہے کہ ہاشم پہلے شخص ہیں جنھوں نے سال میں دوسفر جاری کیے،ایک سفر ملک شام کی طرف اور دوسرا سفر حبشہ میں نجاشی کے پاس۔ اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ قریش کی تجارت مکہ کے باہر نہ تھی اور وہ تنگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہاشم نے شام کا سفر کیا اور قیصر کے ہاں فروکش ہوئے۔
قیصر نے اُنھیں بلا بھیجا اور ان کی گفتگو سنی جو اسے بہت پسند آئی چنانچہ وہ انھیں اپنے ہاں بلانے لگا۔ ہاشم نے اس سےکہا کہ اے بادشاہ! میری ایک قوم ہے اور وہ عرب تاجر ہیں۔ اُنھیں ایک فرمان(پروانہ شاہی) عطاکر جو اُنھیں اور ان کی تجارت کو امن دے تاکہ وہ حجاز کے چمڑے اور کپڑے بر آمد کریں چنانچہ قیصر نے ایسا ہی کیا۔ہاشم وہاں سے روانہ ہوگئے اور عرب کے جس جس قبیلے کے پاس سے ان کا گزر ہوا، ان قبائل کے سرداروں سے ایلاف (معاہدہ امن برائے تجارت) کیا تاکہ وہ انھیں اپنے پاس اور اپنے حدود ارضی میں امن دیں اور اُنھوں نے مکہ سے شام تک ایلاف (معاہدہ امن برائے تجارت)حاصل کیا۔
جس وقت ہاشم بن عبدمناف کا انتقال ہوا تو قریش کو بڑا غم ہوا وہ بے چین ہوگئے ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ دیگر عرب(تجارت میں)ان پر غالب آجائیں چنانچہ اسی لیے عبد شمس حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس گئے اور اس کے اور اپنے درمیان معاہدے کی تجدید کی، اور نوافل عراق گئے اور کسریٰ (شاہ ایران) سے ایک معاہدہ کیا اور مطلب نے یمن کے قبائلی سردار وں سے معاہدے کیے۔ کہتے ہیں کہ قیصر روم ہی نے نجاشی کے نام سفارشی خط دیا تھا۔ اسے دیکھ کر نجاشی نے ان لوگوں کو اپنے علاقے میںتجارت کے لیے آمدورفت کا عام پروانہ عطاکیا تھا۔ چنانچہ مورخ ابن سعد کا بیان ہے کہ ہاشم نے قیصر سے قریش کے لیےیہ عہد لیاتھا کہ امن وامان وحفاظت کے ساتھ سفر کر سکیں۔ سڑکوں اور راستوں پر اپنا مال واسباب لے کر گزریں تو کرایہ اور محصول نہ دینا پڑے۔ قیصر نے یہ اجازت نامہ لکھ دیا اور نجاشی (فرمانرواسے حبشہ) کو بھی لکھا کہ قریش کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے۔یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور اسی لیے ان ممالک میں سفر کرنے کی انھیں ضرورت لاحق تھی۔
ہاشم اور پھر ان کے بھائی عبد شمس، مطلب اور نوفل کے قریشی بڑے ہی ممنون احسان تھے ان کے اصحاب الایلاف ( معاہدہ امن برائے تجارت کرنے والے) کے خطاب سے موسوم کرتے تھے چنانچہ محمد بن حبیب (المتونی ) اپنی کتاب ’’ کتاب المجر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ ایلاف معاہدوں کو کہتے اور اصحاب الاایلاف (معاہدہ امن برائے تجارتے کرنے والے) عبد مناف بن قصی کے بیٹے تھے جن کے نام ہاشم ، عبد شمس ، مطلب ، اور نوفل ہیں۔ ہاشم کی منڈی شام میں تھی، اور بمقام غزہ ( شام کا ایک مقام) اُنھوں نے انتقال کیا۔‘‘
غرض ہاشم پہلے شخص ہیں جنھوں نے قریش کے لیے دو سفر جاڑے اور گرمی میں رائج کیے۔ ہاشم ، عبد شمس، مطلب اور نوفل یہ چاروں عبد مناف کے بیٹے تھے۔
عبد مناف کے یہ چاروں بیٹے اپنے باپ کے بعد قوم کے سردار ہوئے۔ ان کو مجبرون کہتے ہیں۔ اُنھوں نے سب سے پہلے قریش کے لیے دوسروں ملکوں میں سکونت کے لیے اجازت نامے حاصل کیے اس کی وجہ سے قریش حرم سے دور دور منتشر ہوگئے۔
ہاشم نے شاہان روم اور غسان سے اجازت نامہ حاصل کیا۔
عبد شمس نے نجاشی سے اجازت حاصل کی اس وجہ سے قریش حبشہ چلے گئے۔
نوفل نے شاہان ایران (اکاسرہ ایران) سے اجازت حاصل کی اور اس وجہ سے قریش عراق جاکر آباد ہوئے۔
مطلب نے ملوک حمیر سے نوآبادی کی اجازت حاصل کی اور اس وجہ سے قریش یمن جاکر آباد ہوئے چونکہ ان کی وجہ سے اللہ نے قریش کے حالت درست کر دی اس لیے ان کو مجبرون کہنے لگے۔
عبدمناف کے بیٹوں میں سب سے پہلے ہاشم نے شام کے شہر غزہ میں انتقال کیا اس کے بعد عبد شمس نے مکہ میں انتقال کیا اور جیاد میں دفن کیا گیا۔ اس کے بعد نوفل نے عراق کے راہ میں سلہان کے مقام پر انتقال کیا پھر مطلب نے یمن کے مقام رومان میں انتقال کیا۔
غرض قریش مکہ سے یمن ، حبشہ ، مصر اور عراق ،ایران تک تجارت کے لیے سفر کرتے تھے۔ یہ تمام سفر اُونٹوں ہی پر ہوتا تھا۔البتہ حبشہ کو یمن سے کشتیوں میں جاتے تھے۔ ان قریشیوں کی اولو العزمی دکھانے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی ایک تجارتی منڈی حلب جو کہ شمالی سرے پر واقع ہے اور مکہ جو کہ جزیرہ نمائے عرب کے وسط میں مغربی سمت پر واقع ہے، ان دونوں کے درمیان فاصلہ اتنا ہی طویل ہے۔ جتنا کہ روم اور لندن کے درمیان فاصلہ ہے ۔نیز عرب کا یہ راستہ بنجر اور اکثر پتھریلا ہے۔