میثاق معیشت کیوں نہیں؟
سیدہ کنول زہرا
بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی مذہب کارڈ ، کبھی ووٹ کارڈ، کبھی لسان کارڈ، کبھی فرقہ کارڈ، کبھی مجھے کیوں نکالا کارڈ، کبھی حقیقی آزادی کے نام پر مجھے اقتدار میں واپس لائو کے لیے عوام کارڈ کا استعمال کر کے ملک کے نظام پر دبائو ڈالا جاتا ہے، یہ عناصر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنے اقتدار کی بقا یا واپس آنے کے لیے تو بہت زور دار مہم چلاتے ہیں مگر جب حکومت چلاتے وقت عوامی مسائل کے حل کے لیے ہر تین ماہ بعد مزید تین ماہ کے انتظار کا عندیہ بھی دیتے نظر آتے ہیں۔
جمہوریت براہ راست عوام کے حقوق کی بقا کی ضامن سمجھی جاتی ہے، ہمارے یہاں اپنی اپنی حکومتیں بچانے یا اقتدار میں آنے کے لیے تو میثاق جمہوریت پلان کی جاتی ہے مگر عوام کے بے دریغ استعمال کے باوجود ان کی بقا کے لیے میثاق معیشت پر کوئی حکمران یا سیاسی شخصیات بات نہیں کرتی ہیں۔
کبھی کسی کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اب میں اپنی حرکتوں کی وجہ سے اقتدار کھو دوں گا تو وہ مجھے کیوں نکالا کے بیانیے سے قبل عوام پر قومی خزانے کا منہ کھول کر خوب پیسہ لٹانے کی بات کرتا ہے، کبھی کوئی اپنی ناقص پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو ریلیف دینے کی اس لیے کوشش کرتا ہے کہ اب میرا اقتدار چند روز کا رہ گیا ہے، لہٰذا دوسری حکومت کی درد سری کے لیے عوام کو وقتی فائدہ دے کر قومی خزانے کو دائو پر لگا کر معاشیات کی ایسی کی تیسی کردو۔
یہ لوگ اقتدار سے نکالنے سے پہلے رجیم چینج کا سیاسی چورن بنا کر عوام میں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آنے والوں کو امپورٹڈ حکومت کا طعنہ دیتے ہیں جبکہ مرضی میں انہیں کسی کا لاڈلا یا Selected کا نام دیا جاتا رہا ہوتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے، اقتدار کی اس کھنچ تان میں ملک کا معاشی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک کا اقتدار سنبھالنے کے شدید خواہش مند کبھی ملک میں معاشی انقلاب کے لیے متحرک نہیں ہوتے ہیں، ہم نے میثاق جمہوریت کی پریکٹس دیکھی ہے، حکومت بچانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد دیکھا ہے، اپنی مرضی کی جمہوریت کی بقا کے لیے وائٹ پیپر پیش ہوتے دیکھے ہیں، دوبارہ یا فوری انتخابات کے لیے بڑے بڑے جلسے دیکھیں ہیں مگر معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں دیکھی ہے۔
پڑوسی ملک سری لنکا ڈیفالٹ کر گیا ہے، خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سری لنکا میں زر مبادلہ کے ذخائر 2.31 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ رواں برس اسے بیرونی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان کی صورت حال دیکھیں تو پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم127 ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ قرض کے اس مجموعی بوجھ میں آئی ایم ایف، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، پیرس کلب اور غیر ممالک سے لیے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر کمرشل بینکوں سے حاصل قرضے بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم127 ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ قرض کے اس مجموعی بوجھ میں آئی ایم ایف ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، پیرس کلب اور غیر ممالک سے لیے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر کمرشل بینکوں سے حاصل قرضے بھی شامل ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے قرضے اور واجبات کا مجموعی حجم ستمبر2021 ء کے اختتام تک تاریخ میں پہلی بار 504 کھرب 86 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے، تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت کے دور میں سوا تین سال کے دوران قرضوں میں اوسطا 17 ارب 36 کروڑ روپے یومیہ کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 سے ستمبر 2021 تک مجموعی قرضوں اور واجبات میں 206 کھرب 5 ارب روپے کا رکارڈ اضافہ ہوا۔
دوسری جانب ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرنے کا دعوی کرنے والی شہباز حکومت کو ایک ماہ سے زائد ہونے کو آیا ہے مگر ان کی جانب سے کوئی معاشی پالیسی تاحال پیش نہیں ہو پائی ہے، یوں لگتا ہے وہ بے اختیار وزیراعظم ہیں، انہیں اہم فیصلوں کے لیے لندن حاضری لگانا پڑ رہی ہے جو مثبت پیش رفت نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آخر کیسے ملک میں معاشی بہتری آ سکتی ہے تاکہ ہم ممکنہ دیوالیے سے بچ سکیں۔
اطلاعات کے مطابق سرمایہ کاروں نے اس ایک ماہ میں پاکستان کی مارکیٹ سے4.1 ارب نکال لیے ہیں، ڈالر 200 روپے تک جا پہنچا ہے، سٹاک مارکیٹ تین ہزار 477 پوائنٹس تک نیچے آ گئی ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہے، حکومتوں کے دعووں اور وعدوں کے باوجود بھی معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند جب کہ خط غربت سے نیچے رہنے والی آبادی 38 فی صد بتائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ملک کی برآمدات میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوسکا ہے، یہ پچھلے کئی برسوں سے 20 سے 25 ارب ڈالرز کے درمیان ہی منجمد ہے۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس وقت درآمدات کو انتہائی کم کرنا ہو گا۔
اللہ کے فضل پاکستان زرعی ملک ہے۔ حکومت کو فوری طور پر زمینداروں اور کسانوں کا اعتماد حاصل کر کے زرعی پیداوار بڑھانی ہوگی، غیر ضروری امپورٹڈ اشیا کی پاکستان آمد پر سخت پابندی عائد کرنی ہوگی، سرمایہ دار طبقہ ڈالرز کو فروخت کر کے روپے کو مضبوط کر سکتا ہے، اس کی بہترین مثال ترکی میں دیکھی گی ہے جہاں عوام نے ڈالرز بیچ کر اپنی کرنسی کو تقویت دی تھی۔ ملک میں معاشی بہتری کے لیے شرح سود میں کمی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صنعت کاروں کو اعتماد میں لے کر ان سے مشاورت کی جانی چاہیے، حکومت سیاسی انتشار کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے ہچکچا رہی ہے، اس کے لیے تو سب سے پہلے ہر سیاسی جماعت کو ملک کی خاطر سارے اختلافات ایک طرف رکھ کر ایک ساتھ بٹھانا ہو گا ، مکمل مشاورت سے آئی ایم ایف کے پاس جاکر ان کی شرائط ماننے کا کڑوا گھونٹ پینا ہو گا تاہم ساتھ ہی عوامی ریلیف کے لیے آسان قرضہ، روزگار اسکیم دینی ہوگی، غریب طبقے کے وظیفے میں اضافہ کرنا ہو گا، طالب علموں کے لیے وظیفوں کا بھی اعلان کرنا ہو گا، تنخواہوں، پینشز میں بھی اضافے کی ضرورت ہے مگر سب سے پہلے سیاسی انتشار کو ختم کرنا ہو گا جو صرف حکومت کی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی بھی ذمے داری ہے، صرف ’’ میرے پاکستانیو! ‘‘ کہہ کر کام نہیں چلے گا ملک کے لیے اپنی انا کو قربان کر کے حکومت کے ساتھ بہتر معاشی پلان مرتب کر کے اس کے نفاذ میں مدد دینا ہوگی، ایسا ہی اقدام حکومت اور ان کے اتحادیوں کو کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی ماہر اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی معیشت سے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی صورت حال سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے معیشت کی بہتری کے لیے ’چارٹر آف اکانومی‘ کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے۔ معاشی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔ جن سے عدم مساوات کا خاتمہ، روزگار کے مواقع، غربت ختم اور غذائی سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔