وال مارٹ سے مسٹر مارٹ تک
مصاحبہ کار: نثار موسٰی
میرا نام عاصم غوث ہے اور میرا ایک بزنس فیملی کے ساتھ تعلق ہے۔ میرے پرداد سے لیکر آج تک ہم بزنس میں ہیں۔ پردا داایس پی سے بزنس میں آئے۔ پھر میرے دادا اور والد صاحب نے ڈسٹر ی بیوشن کے بزنس کو آگے بڑھایا۔ اب الحمدللہ 2018 ءسے مسٹر مارٹ کے نام سے ہم ریٹیل بزنس میں آگئے ہیں۔
میں بزنس میں کیسے آیا:
شروع شروع میں جب میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہوا تو والدہ دھکے دے کر دُکان پر بھیج دیتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ آپ کو فارغ رہنے نہیں دینا۔ تب بُرا لگتا تھا کہ والدہ کیوں ایسا کہہ رہی ہے۔ لیکن آج یاد آتا ہے کہ میری والدہ کا وہ فیصلہ درست تھا۔ میں مشکل سے وہاں ایک سال بیٹھا۔ میرے دل میں ایسا ایک خیال آیا کہ میں خود اپنے پیروں پر کھڑا ہوجاؤں۔ جس سیٹ پر لالہ موسیٰ میں جاکر بیٹھتا تھا وہ پردادا کی زمانے سے چل رہی تھی۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ یہ کام آپ نے بہتر انداز سے سنبھالا ہوا ہے آپ مجھے کسی اور جگہ بزنس کرادیں تو کھاریاں میں ایک ڈسٹری بیوشن ملی۔ اس میں بڑی بڑی کمپنیز شامل تھیں۔ میرے والد صاحب نے جان بوجھ کر نہ گودام کیپر رکھا اور نہ ہی اکاؤنٹنٹ۔ مقصد یہ تھا کہ یہ سب کچھ خود سے سیکھ سکے۔ لڑکے جب بکنگ کرکے آتے تھے تو میں ان سے پوچھتا کہ کیا بکنگ کرکے آئے ہو تو وہ مجھے بہانے بتاکر نکل جاتے تھے۔ میں نے خود مارکیٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے سوک گاڑی نکالی اور ایک دکان کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے خوش آمدید کہا اور آرڈر بھی دیے۔ بعد میں مجھے لڑکوں نے بتایا کہ سر اُنھوں نے گاڑی دیکھ کر آرڈر دیے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ بائیک پر جائیں پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح ملتے ہیں۔
اس مارکیٹ میں پوٹیشنل کم تھا۔ اسی دوران میرے والد صاحب کو ہمارے ایک محسن عامر عباسی صاحب نے کہا کہ اگر آپ تیار ہیں تو ہم آپ کو گجرات میں ایک بڑا کام دیتے ہیں۔ میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ بچے کھاریاں میں مصروف ہیں۔ میری والدہ جو اپنے بچے کی صلاحیتوں سے واقف تھیں۔ آپ مجھ سے پیسے لے لیں میرا زیور بھیج دیں مگر میرے بیٹے کو یہ کام دلادیں۔ تو الحمدللہ میں نے ایک موٹر سائیکل لی۔ پورے شہر کا وزٹ کیا، اس کے سیکٹرز دیکھے۔ گجرات سے میرے ڈسٹری بیوشن کا سلسلے کا آغاز ہوا۔ بڑا شہر تھا چیلنج سمجھ کر چار ملین کے سیلز کو 20 ملین تک لیکر گئے۔
نئے سفر اور نئی منزلیں:
میں یہ سوچتا تھا کہ ڈسٹری بیوشن کا بزنس رسکی ہے۔ کمپنیز اچانک آپ سے بزنس لیکر کسی اور کو دے سکتی ہیں۔ 2014ء کو مجھے کینیڈاجانے کا موقع ملا۔ وہاں میں فارغ نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ میرا ایک کزن وال مارٹ میں جاب کرتا تھا۔ میں ان کو لینے جاتا تھا وہاں انتظار کے دوران میں نے دیکھا کہ کوئی سپروائزر لوگوں کا انٹرویو کررہا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ ایک موقع ہے اپنی ورتھ جاننے کا۔ وہاں تو میرے والد کا بزنس ہے، یہاں میں خود ہوں۔ نہ میرا پیسہ ہے، نہ نام ہے اور نہ ملک۔ میں گھر آیا اور اپنی سی وی بنانے لگ گیا۔ ملک میں تو دوسروں کی سی وی دیکھتا یہاں پر اپنی بنانی پڑ رہی تھی۔ میں اپنا تجربہ اس سی وی میں لکھا اور سپروائزر کے پاس چلاگیا۔ اس نے سی وی دیکھتے ہی مجھے میرے کزن سے دو ڈالر زیادہ تنخواہ پر رکھ لیا۔
میرے دل میں تھا کہ میں نے ریٹیل بزنس میں آنا ہے۔ وال مارٹ کا تجربہ بہت کچھ سکھا گیا۔ انھوں نے مجھے سب سے پہلے فورک لفٹ پر رکھا اور ایک چیک لسٹ دی کہ ہر صبح اس کو استعمال سے پہلے چیک کیسے کریں۔ میں نے سوچا کہ پاکستان میں میری ڈسٹری بیوشن کی گاڑی لڑکے صبح مارکیٹ لیکر جاتے ہیں اور ان کا فون آتا ہے کہ ٹائر پھٹ گیا۔ انجن خراب ہوگیا۔
اپنے اسٹور کا آغاز:
جب میں واپس آیاتو اپنے ایک دوست کو جس کا ایک ریٹیل بزنس تھا ،کہا کہ میں نے آپ کے ساتھ ملکر گجرات میںایک اسٹور بنانا ہے تو وہ ہنس پڑتا تھا اور مذاق سمجھتا تھا۔ ایک دفعہ میں کہیں گزر رہا تھا۔ میں نے کینیڈا دوبارہ جانے کا سوچا تھا، مجھے یک دم بریک لگ گئی۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے یہ سوچ لیاکہ اس جگہ ایک شاندار اسٹور بننا چاہیے۔ میں نے مال منیجر سے کہا کہ میں یہاں ایک اسٹور کھولنا چاہتا ہوں۔ اس نے میرا نمبر لیا اور کہا کہ میں آپ کی لینڈ لارڈ سے بتا کرکے بتاتا ہوں۔ اگلے دن میرے آفس پہنچنے سے پہلا وہ وہاں پہنچ گیا تھا۔ اس نے دس لاکھ کرایہ مانگا۔ میں نے جان چھوڑانے کے لیےسب سے کم ترین رقم بتادی اور چلاگیا۔ شام کو اس کا فون آیا کہ ٹھیک ہے۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ نا میں نے والد صاحب سے بات کی ہے اور نہ کسی دوست سے مشورہ کیا۔ پھر میں اپنے دوست کے پاس پہنچ گیا اور کہا کہ ہاں بھائی تیار ہو اسٹور کھولنے کے لیے۔ اس نے پھر مذاق سمجھا۔ جب میں نے اس کو بتایا کہ میں یہ سب کچھ کرچکا ہوں۔ پھر میں نے گجرات میں اس اسٹور کا آغاز کیا۔ وہی انداز جو وال مارٹ کا تھا حتیٰ کہ میں نے پارکنگ میں لیڈیز ڈرائیورز ک کےلیے جگہ مختص کی، مجھے پتا تھا کہ یہ گجرات کے لیے ابھی قبل از وقت ہے۔ اس کا نام مسٹر مارٹ رکھا اور اس کا لوگو بھی فنکی رکھا تاکہ یہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔
جب مارٹ کا آغاز کیا تو میں نے سوچا کہ میری سیل دو تین لاکھ ہوگی مگر پہلے ہی دن دس لاکھ کی سیل ہوئی۔ مجھے اچھے کام کرنے والے ساتھی ملے، اچھے کسٹمرز اور وینڈرز ملے۔ اس کامیابی کے بعد ٹھیک تین سال بعد ہم نے وزیرآباد میں بھی ایک شاندار اسٹور کھولا جو اس سے پہلے وزیرآباد میں نہیں تھا۔ ہم اس کو ایک چین آف اسٹور بنانا چاہتے ہیں۔
میں کاروبار کرنے کو اس لیے ترجیح دیتا ہوں کہ بجائے پراپرٹی میں پیسہ پتھر کرنے سے آپ کاروبار کریں اور لوگوں کو روزگار دیں۔ آپ کے ساتھ دسیوں وینڈرز شامل ہوجاتے ہیں۔
میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ میں نے سود نہیں لینا۔ میں نے زکوٰۃ دینی ہے اور رحمان کے نام کا حصہ اپنے کاروبار میں رکھنا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ محنت اور نیک نیت اور ہمیشہ مثبت سوچ رکھنا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مضبوط توکل رکھنا۔ اس دوران مشکل حالات کا سامنا کیا ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کے دعائیں مانگیں۔ اور قدم بقدم بہتری آتی گئی۔
نوجوانوں کے لیے پیغام:
نوجوانوں سے کہوں گا کہ وقت کا انتظار نہ کریں۔ وقت ابھی ہے۔ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ مجھے موقع ملے گا میں کام شروع کروں گا۔ مجھے اس لیول کا کام ملے گا تو میں شروع کروں گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں سوچنا۔
حال یہ تھا کہ میں نے اپنی مارٹ کے اندر خود جھاڑو لگایا۔ اگر کوئی لڑکا نہیں آیا تو خودکام کیا۔ کبھی بھی کسی کام میں شرم محسوس نہیں کی۔ میں نے کسی بھی چیز کو اننانیت کا مسئلہ نہیں بنایا۔ میں نے ہمیشہ بزنس فرسٹ کی پالیسی اپنائی۔
نماز کو مضبوطی سے پکڑیں۔ نیک نیتی سے آگے بڑھیں۔ جو کام شروع کریں اس کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں چیزوں کو لکھیں اور پختہ ارادے کے ساتھ کام شروع کریں۔
کسٹمر کے ذہن میں مسٹر مارٹ کا تصور:
پہلی چیز ماحول ہے۔ ماحول کا مطلب فیملی کےلیے محفوظ جگہ۔ اس کے بعد ورائٹی۔ ہم مسٹر مارٹ جارہے ہیں تو ہمیں ورائٹی ملے گی۔ مجھے ہر چیز ایک چھت تلے مل جائے گی۔ ضروریات زندگی کی اشیا پر ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم پیسہ نہ کمائیں۔ میرے مارٹ پر لینڈ کروزر والے سے لیکر ایک رکشے والا بھی شاپنگ کرسکتا ہے۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ ایک مزدور جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، وہ بھی ٹرالی پکڑ کر شاپنگ کررہا تھا، اس کو دیکھ کے میرا دل خوش ہوا۔